Orhan

Add To collaction

چاند دیکھکر

ہم وہ تو نہیں کر سکتے جو انہوں نے صبا کے ساتھ کیا۔ مگر ہمیں کیا پتا کہ انگلینڈ میں اس کا کردار۔" ایوب کی بات ادھوری رہ گئی' سب اپنی اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے۔

" اپ کہاں چلے گئے تھے ایوب بھائی۔ اور اب یہ سب کیا ہے؟" ہانیہ آگے بڑھی۔

" بھائی گھر کی چھت دینے کا وعدہ کر کے چھت نہیں چھینیں گے اور نہ ہی نام دینے کا وعدہ کر کے مکریں گے۔ صبا میری بہن ہے اور اپنی بہن کی خوشی کے لیے میں یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہوں۔" فریدون دلہن کے برابر میں بیٹھ گیا۔

" یہ کیا بکواس ہے؟" صبا کی ماما اور تائی ایک ساتھ بولیں۔

" اگر آپ انوشے کی شادی فریدون سے کرنا چاہتی ہیں تو ٹھیک ہےورنہ آپ لوگ واپسی کے ٹکٹ کروا لیں۔"

" یہ کیا بکواس ہے؟" چاچو دھاڑے۔

" یہ سچ ہے چاچو! آپ اس بچی کو اپنا بنا کر لاۓاور پھر ایک بار پھر' اسے لاوارث اور یتیم بنا کر چلے گئے۔ وہ جیسے بھی سہی' مگر ہمارے گھر میں رہ رہی تھی۔ آپ لوگ آۓ تو اس پر الزام بھی لگ گیا۔ اسے وہ گالی دے دی جس میں اس کا رتی بھر بھی قصور نہیں تھا۔ اپ نے اپنی لے پالک بچی بدنام اور ذلیل کر کے واپس بھجوا دی۔ اپنی بیوی کی زبان بند نہ کرا سکے اپ۔ کیونکہ صبا اپ کی بیٹی انوشے کی خوشیوں کے راستے کا کانٹا تھی۔"

" خیر' اپ کی صبا کو میں چھوڑ آیا تھا دارالامان۔ مگر اپنی بیوی کو لے ایا ہوں میں آپ سب سے ملوانے۔ صبا ایوب' چاہیں تو اسے قبول کر لیں ورنہ میرے پاس اسے دینے کو بہت کچھ ہے۔ نام بھی ' دولت بھی اور چھت بھی۔"

اس کا لحجہ بہت مضبوط تھا۔ دو قدم پیچھے ہٹ کر اس نے دروازہ کھولا اور چادر میں سمٹی سمٹائی صبا کو اپنے ساتھ لگاۓ اندر لے آیا۔

" یہ ہے میری صبا ایوب۔ جسے کوئی اب نکال نہیں سکتا کیونکہ یہ میری بیوی ہے اب' کسی کی لے پالک بیٹی نہیں۔" وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا۔

" جیتی رہو۔" تایا ابو نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ باقی سب بھی شرمندہ دکھائی دینے لگے۔

" انوشے! تمہیں فریدون کے ساتھ نکاح پر کوئی اعتراض ہے کیا؟" تائی نے انوشے کی طرف دیکھا۔

" نہیں انٹی! اپ کے بیٹے تو رشتے نبھانا جانتے ہیں۔ ایک نے بھائی ہونے کا حق ادا کیا اور بہن کی خوشی کی خاطر مجھے اپنانے کو تیار ہو گیا اور دوسرے نے اپنی محبت کو باعزت مقام دیا۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر فریدون یہ سب کچھ صرف صبا کی خوشی کے لیے کر رہا ہے۔ شاید اس کی پسند اور مرضی کوئی اور ہو۔ بہت اچھی تربیت کی ہے آپ نے بیٹوں کی انٹی۔" وہ سچے دل سے کہہ رہی تھی' انہوں نے فخر سے ایوب اور فریدون کو دیکھا اور پھر شرمندہ شرمندہ سی صبا کے پاس جا کھڑی ہوئیں۔

" اب تو تم میرے ایوب کی دلہن بن کر آئی ہو۔ بہو ہو میری' آؤ۔" انہوں نے بازو کھول دیے۔ وہ ان کے گلے لگ کر رونے لگی۔

   0
1 Comments

Khan sss

29-Nov-2021 10:50 AM

Nice

Reply